وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
اور اگر تم پر (اے مسلمانو)! اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو ایسا معاملہ تم پر سخت پیچیدہ بن جاتا) اور اللہ تعالیٰ بڑا التفات فرمانے والا [١١] اور حکیم ہے (جس نے معافی کا یہ قاعدہ مقرر کردیا۔
مسئلہ لعان : (ف ١) اس آیات میں مسئلہ لعان کی تفصیل بیان کی ہے اس کی صورت یہ ہے کہ مرد عورت کے کردار کے متعلق شبہات وشکوک کا اظہار کرے اور عورت برات کرے ، مرد یہ کہے کہ یہ فاحشہ اور زانیہ ہے اور عورت کہے کہ میں اس الزام سے پاک ہوں (تو صورت فیصلہ کیا ہو ؟ ) قرآن کہتا ہے کہ دونوں حاکم وقت یا اسلامی ہئیت حاکم کے سامنے چار دفعہ خدا کی قسم کھا کر یہ کہیں کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، اور پانچویں دفعہ اپنے اوپر لعنت بھیجیں ، اگر واقعات کی رو سے جھوٹے ہوں ، تو پہلے مرد کھڑا ہو اور وہ الزام کو بیان کرے ، اور چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے ، اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو ، اسی طرح عورت کھڑی ہو اور وہ بھی اسی طرح چار دفعہ خدا کی قسم کھا کر الزام کو رد کرے اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر یہ سچا ہوا تو مجھ پر خدا غضب نازل ہو ۔ لعان کے بعد فریق کے سلسلہ میں فقہاء مجتہدین کے مختلف اقوال ہیں عثمان الغنی کی رائے ہے کہ نفس لعان سے تفریق وغیرہ واقع نہیں ہوتی ، امام مالک ، لیث اور زفر کا خیال ہے تفریق واقع ہوجاتی ہے ، ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ تفریق اس وقت تک واقع نہیں ہوتی جب تک کہ حاکم یا ہئیت حاکمہ ان میں تفریق کا اعلان نہ کر دے ، ان سب کے پاس دلائل ہیں ، اور یہ موضوع محل بحث ونظر ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ تفریق واقع ہوجاتی ہے ، کیونکہ قطع نظر فقہی دلائل کے صورت مسئلہ یہ ہے کہ کشیدگی اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے اس لئے یہ رشتہ عملا گویا منقطع ہی سمجھنا چاہئے ۔ حل لغات : الافک : جھوٹ ، بہتان ۔ عصبۃ : جماعت یا گروہ ۔