سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ لوگ عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا مگر تمہارے پروردگار کا ایک دن تمہارے شمار کے حساب سے ہزار سال [٧٥] کا ہوتا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عذاب کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہے : (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ عذاب طلب کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ کا غضب جلد بھڑکے ، تاکہ زندگی کی مسرتوں سے یک قلم محروم ہوجائیں ، مگر یہ نہیں جانتے کہ اس کی گرفت کس قدر جان گسل ہوگی اور وہ عذاب اپنی ہولناک کیفیت کے ساتھ کس درجہ دراز ہوگا ۔ اللہ کا عذاب جس کے یہ لوگ طالب ہیں ، اتنا سخت اتنا خوفناک اور اس قدر شدید ہے کہ اس کا ایک ایک دن ہزار سال کی کلفتوں اور اذیتوں کے برابر ہے ۔ اس آیت میں تصریح فرما دی ہے کہ اللہ کا وعدہ عذاب اٹل ہوتا ہے اس میں قطعا تخلف نہیں ہو سکتا کیونکہ تخلف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ معاذ اللہ وعید کی پیشگوئی کرنے والا نبی لوگوں کی نظروں میں ذلیل اور رسوا ہو ۔ وعدہ عذاب کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب قوم میں پنپنے اور اصلاح پذیر ہونے کی صلاحیت نہیں رہی اور گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا ، اس لئے اس وقت قوم کا مٹ جانا اور تباہ ہوجانا ہی منشاء قدرت ہوتا ہے ، اور اس وقت جب عذاب کا وقت مقرر ہوجائے تو توبہ وانابت کا کوئی موقعہ نہیں رہتا ، کیونکہ تعین وقت کا اعلان دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے ، کہ اب قوم کو یقینا اور ضرور عذاب دیا جائے گا اور کوئی طاقت اس کو عذاب الہی سے نہیں بچا سکے گی ، حل لغات : املیت : ڈھیل دی ، املا کے معنی مہلت کے ہوتے ہیں ۔