إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
بلاشبہ جو لوگ کافر ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے اور مسجد حرام (کی زیارت) [٣٠] سے روکتے ہیں۔ وہ مسجد حرام جس میں ہم نے وہاں کے باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر رکھے ہیں [٣١] اور جو کوئی از راہ ظلم مسجد حرام میں کجروی [٣٢] اختیار کرے گا (ایسے سب لوگوں کو) ہم دردناک عذاب چکھائیں گے۔
بیت اللہ کی حرمت : (ف1) کفار اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ صادر فرمانے کے بعد اب بیت اللہ کی عزت وحرمت کا بیان ہے ، بتایا ہے کہ یہ لوگ کس درجہ محروم اور قسی القلب ہیں ، کہ مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ، اور بیت اللہ تک جانے نہیں دیتے ، تاکہ مسلمان آزادانہ اپنے مناسک ادا کرسکیں ، بات یہ تھی کہ حضور (ﷺ) سال حدیبیہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے ، تاکہ وہاں پہنچ کر کھلے بندوں اپنی عقیدت ونیاز مندی کا اظہار کریں ، مگر مکے والوں نے حدیبیہ کے مقام میں حضور (ﷺ) کو روک لیا ، اور آگے نہ بڑھنے دیا ۔ قرآن حکیم نے ان کے اس فعل کی مذمت فرمائی ہے اور کہا ہے کہ بیت اللہ میں سب کے حقوق برابر ہیں ، اس میں یہاں رہنے والوں کی کوئی تخصیص نہیں ۔ حل لغات: الْعَاكِفُ: مقیم ۔ الْبَادِ: مسافر ، باہر سے آنے والا ۔