سورة الحج - آیت 8

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو بغیر علم [٨]، ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

معرفت کے تین درجے : (ف ١) معرفت کے تین درجے ہیں ، استقلال ، وجدان اور آسمانی کتاب ، یعنی یا تو انسان قوت غور وفکر سے حقائق تک پہنچ سکتا ہے ، یا پھر وجدان صحیح راہ نمائی کرتا ہے ، اور یا الہامی کتاب سے حقیقت کا پتہ چلتا ہے ، پہلا درجہ یقینی اور قطعی نہیں ۔ مگر اکثر حالات میں قابل اعتماد ہوتا ہے ، دوسرا درجہ اکثر غلط ہوتا ہے اور کم تر صحیح ، مگر جہاں صحیح ہوتا ہے وہاں یقین کا پہلو غالب ہوتا ہے ، بہت کم لوگ ہیں ، جنہیں فطرت سے وجدان صحیح سے حصہ ملا ہو ، تیسرا درجہ بالکل قطعی اور حتمی ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ اللہ کی صفات وقدرت کے متعلق شکوک وشبہات کا ذکر کرتے ہیں ان تینوں درجوں سے محروم ہیں ، نہ تو یہ عقل واستدلال کی راہ نمائی قبول کرتے ہیں اور اور وجدان صحیح سے بہرہ ور ہیں پھر بےدینی اور الحاد کا یہ عالم ہے کہ کوئی صحیفہ آسمانی ان کی نگاہوں میں جچتا نہیں ، اب اگر حق کی پہچان ہو تو کیونکر ہو ، اور معرفت کس طرح حاصل ہو ، یہ واضح رہے کہ اسلام غور وفکر کا مخالف نہیں ، بلکہ نہایت موافق اور زبردست حامی ہے ، یقینا وہ چاہتا ہے کہ غور و فکر کی راہیں ایسی محفوظ اور درست ہوں کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں آسانی ہو ، کیونکہ بلا تدبر وغور اگر اسی کا احتمال اور ضلالت کا خطرہ ہے ۔ حل لغات : ثانی : موڑنے والا ، پھیرنے والا ، عطفہ : جانب ۔ حرف : کنارہ ۔