سورة البقرة - آیت 254

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے وہ دن آنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ [٣٥٩] کر لوجس دن نہ تو خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش، اور ظالم تو وہی لوگ ہیں جو ان [٣٦٠] باتوں کے منکر ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب قرآن حکیم کی متعدد آیات میں مزکور ہے جس کے دو معنی ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان دنیا میں دولت وسرمایہ کے لحاظ سے مستعفی ہو ، اس کی حیثیت دینے والے کی نہ ہو ۔ العید العلیا خیر من ید التغلی ۔ دوسرے یہ کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہو سکے ۔ وہ لوگ جو قومی طور پر فیاض نہیں ہوتے اور قومی ضروریات کو محسوس نہیں کرتے قطعی طور پر زندہ رہنے کی اہلیت اور استعداد نہیں رکھتے ، قیامت کے دن پورا پورا محاسبہ ہوگا نہ تو سرمایہ کام آسکے گا اور نہ کوئی دوستی ہی ، اور وہ لوگ جنہوں نے یہاں بخل وکفر سے کام لیا ہے ‘ وہاں بھی کسی بخشش اور رحمت کے متوقع نہ رہیں ، اس لئے کہ انہوں نے شرک وانکار کی وجہ سے اپنے آپ کو بالکل محروم کر رکھا ہے ۔ ” شفاعت “ کی قرآن حکیم نے عام طور پر نفی کی ہے اور مستقلا سارے قرآن مجید میں ایک جگہ بھی ” شفاعت “ کے مسئلہ کی تائید نہیں ملتی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی جس سفارش اور شفاعت کے قائل تھے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کے اقرار کرلینے کے بعد ہر معصیت اور ہر گناہ جائز ہے ، قرآن مجید اس نوع کی شفاعت کی کلیۃ نفی کرتا ہے ، البتہ اللہ کے نیک بندوں کو اذان دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی سفارش کرسکیں گے ۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پابند صوم وصلوۃ مسلمانوں کی سفارش کریں گے جن سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوگئے ہوں ۔