سورة الأنبياء - آیت 109

فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو ان سے کہئے کہ'': میں نے تم سب کو علی الاعلان [٩٧] خبردار کردیا ہے۔ اور میں نہیں جانتا کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ نزدیک ہے یا دور۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف3) ان آیات پر سورۃ انبیاء کا اختتام ہے ، اور ان میں صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے ، کہ اسلام کی تعلیم بالضرور توحید ہے یعنی باطل اور جھوٹ کے خلاف کھلی جنگ ، حق اور سرکشی کے درمیان ابدی منافرت اور ظلم واستبداد کے مقابلہ میں قوت وغلبہ کا دائمی مطالبہ فرماتے ہیں تم توحید کے مسلک کو قبول کرلو یا انکار کر دو ، ہم بہرحال ایک خدا کی پرستش کریں گے ، اور اسی خدا کی قوتوں سے ڈریں گے ، تمہاری مخالفت اور تمہارے عناد کی قطعا کچھ پروا نہیں کریں گے ۔ ہمارے دلوں میں صرف ایک ذات کی محبت ہے اور صرف اسی ذات کا ڈر ہے ، جو رب السموت والارض ہے ۔ یہ آیات اپنے مفہوم میں مکے والوں کے لئے کھلے اعلان جنگ کی حیثیت رکھتی ہیں ، اس لئے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں مکہ میں اسلام کی حکمت عملی خوف وہراس کی حکمت عملی تھی ، انہیں ان آیات پر غور کرنا چاہئے کہ کس جرات وجسارت کے ساتھ ان لوگوں کو تباہ کردیا گیا ہے ، اور واضح کردیا گیا ہے کہ تم گو انکار کرو مگر حقیقت وہی ہے جس کا ہم اعتراف کرلیتے ہیں ، اور جسے پھیلانا ہم دین کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ حل لغات : الْمُسْتَعَانُ: وہ ذات جس سے استعانت اور مدد چاہیں ۔