سورة الأنبياء - آیت 81

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز ہم نے سلیمان کے لئے تند و تیز ہوا کو مسخر کردیا تھا جو اس کے حکم سے اس سرزمین [٦٩] کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور ہم ہر چیز کو خوب [٧٠] جانتے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا مستخر کی ، اس کے معنی یہ ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) فضا اور جو سے (محدود مقام تک) حسب منشاء استفادہ کرلیتے تھے ، اور ان کو اس پر ضبط اور کنٹرول حاصل تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کے پاس ایک تخت تھا ، جو ہوا میں اڑتا تھا ، اور شام سے یمن اور یمن سے شام تک اس کی پرواز ہوتی تھی ، تو کیا یہ تسخیر طیاروں کی صورت میں تھی ؟ واضح طور پر اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ، مگر متبادر معنے جو سمجھ میں آتے ہیں ، وہ یہی ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس طیارہ کی قسم کی کوئی چیز تھی ، اور وہ ان کی اپنی ایجاد تھی جس کی وجہ سے وہ ہواؤں میں اڑتے پھرتے تھے ۔ بات یہ ہے کہ گو آج کل کا زمانہ ایجادات واختراعات کے باب میں بہت آگے نکل گیا ہے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ حضرت انسان سے پہلی دفعہ اس حد تک ترقی کی ہو ، چنانچہ اثری تحقیقات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بارہا اس محفل دنیا کو آراستہ کیا گیا ہے ، اور عقل وحکمت کی کارفرمائیوں سے حیرت زا اور عجیب تر بنایا گیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ درمیان میں حوادث ارضی وسماوی نے ان ترقی کے نشانوں کو مٹا دیا ہو ۔ اس لئے اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں طیاروں کی قسم کوئی چیز پائی جائے تو اس میں کوئی تاریخی استحالہ لازم نہیں آتا ۔