سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو طویل مدت [٣٩] تک سامان زیست سے فائدہ پہنچایا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ پھر کیا یہی غالب [٤٠] رہیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مخالفین اسلام کو اپنی معاندانہ کوششوں پر بڑا ناز تھا ، ان کا خیال تھا کہ ان کی ناپاک مساعی سے اسلام کی بڑھتی ہوئی برکات رک جائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ محض وہم باطل ہے انہیں دیکھنا چاہئے ، کہ فتوحات اسلامی کی وسعتیں کہاں تک پھیلتی چلی جا رہی ہیں ، کیا اسی مغلوبیت کا نام قبضہ وغلبہ ہے ؟ یہ تاریخ کا چمکتا ہوا واقع ہے ، کہ اسلام جس ہمہ گیری اور غیر محدود طور پر پھیلا دنیا کا کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، تاریخ عاجز ہے کہ مسلمان مجاہدین کی مثال پیش کرسکے ۔ پھر کیا باطل اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے ؟ کیا جھوٹ کو اتنا فروغ حاصل ہوتا ہے کہ لوگ جوق در جوق اس کو قبول کریں ، اور خاص وعام طبائع اس قدر متاثر ہوں ؟ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرچند ان لوگوں کو حقیقت کی طرف بلایا ۔ مگر یہ قوت سماعت سے محروم ہوچکے ہیں ، اس لئے مطلقا کان نہیں دھرتے ، اور نہیں سنتے کہ سب کچھ ان کے بھلے کے لئے کہا جارہا ہے ۔