سورة طه - آیت 77

وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ ’’میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ۔ پھر ان کے لئے سمندر میں خشک راستہ بناؤ۔ تمہیں نہ تو تعاقب کا خوف ہو اور نہ (ڈوب جانے کا) ڈر ہو‘‘

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تائید غیبی کے سامان : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے ہر چندیہ کہا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو مگر اس نے نہ مانا ، اور چونکہ مقابلہ کی قوت نہ گھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے غیب سے تائید کا سامان پیدا کردیا ، فرمایا تم بنی اسرائیل کو رات کی تاریکی میں ارض مصر سے نکال لئے جاؤ اور پھر دریا میں عصا مارو اور خشک ہوجائے گا اور تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے اس میں راستہ بن جائے گا جس کی وجہ سے بغیر پل کے عبو کرسکو گے ۔ فرعون کو جب معلوم ہو اکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر ارض مصر سے نکل بھاگنے کی کوشش میں ہیں ، تو اس نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ تعاقب کیا ، اور دریا میں گھوڑا ڈال دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ نہنگ امواج دریا نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کا طعم بنایا ، اور موت کے گھاٹ اتار دیا ، بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ پر توکل کرکے کمر ہمت باندھ لیتی ہے تو باوجود بےسروسامانی کے اللہ اس کی اعانت فرماتا ہے اور غیب سے اس کے لئے غلبہ واقتدار کے سامان پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ دیکھ لیجئے وہ دریا جس نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو راستہ دیدیا وہ فرعون کے لئے مرگ وہلاکت کا سامان بن گیا ، اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ خدائی مدد موسیٰ (علیہ السلام) کے شامل حال تھی ، دریا کا پانی رک جانا اور اس میں راستہ بن جانا ، یہ بہ صورت معجزہ ہے ، عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا ، مگر اللہ تعالیٰ جس نے دریا اور سمندر پیدا کئے ہیں اگر چاہے تو چشم زدن میں تمام سمندروں کو خشکی سے بدل دے اور لوہے کو پانی کر دے ، اس کی قدرت واستطاعت کے سامنے ہر چیز ممکن اور مطیع ہے ۔ ان آیات میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ دیکھو میں نے کس طرح تمہارے دشمن سے نجات دلائی اور کیونکر تمہاری تربیت کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر آنے کی دعوت کی پھر کن کن عنایات کے ماتحت تمہیں معیشت کے دھندوں سے آزاد رکھا ، تم پر من وسلوی نازل کیا ، تاکہ آزادی سے تم دین سیکھ سکو ، اور اللہ تعالیٰ کی ایک شاندار قوم بن سکو ، یہ عجیب بات ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے جس قدر عنایات کی بارش کی یہ لوگ اتنے ہی غافل رہے اور برابر سرکشی بڑھتی گئی ، ان نعمتوں کے اظہار کی ضرورت اس لئے پیش آئی ، تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت کے یہودی اور عیسائی ان باتوں کو سمجھیں ، اور ان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بھیجا ہے تو ان کی رشدوہدایت کے لئے بھیجا ہے اور یہ بھی ان پر اللہ کا ایک مزید انعام ہے ۔ حل لغات : اسر : امر ہے اسرا کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں یعنی راتوں رات نکال لے جاؤ ۔