فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَىٰ
پھر اس معاملہ میں وہ (آل فرعون) آپس میں جھگڑنےلگے اور خفیہ [٤٤] مشورہ کرنے لگے۔
(ف2) جب فرعون اپنے جادوگروں اور لشکر کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں آگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے واعظانہ طور پر فرمایا کم بختو ، حقیقت وصداقت کے پیغام کو سحر وجادو سے تعبیر کر کے کیوں اللہ پر بہتان باندھتے ہو ، کیا تمہارے دلوں میں خوف موجود نہیں ، کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ؟ یاد رکھو اگر تمہارے تمرد کا یہی عالم رہا ، تو نیست ونابود کردیئے جاؤ گے ، ان لوگوں نے یہ باتیں سنیں ، اور آپس میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے لگے ، اور بالآخر اسی بات پر جمع ہوگئے جس کو فرعون نے ان میں پھیلایا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) دو جادوگر ہیں ، جو چاہتے ہیں کہ قبطیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیں ، اور ان کی روایات سے ان کو پلٹ دیں ، آخر اس بات پر اتفاق ہوا ، کہ سب لوگ پوری تیاری کرکے صف آراء ہوں تمام تدبیریں حق کو سرنگوں کرنے کے لئے صرف کردیں ، اور پوری قوت کے ساتھ باطل کا مظاہرہ کیا جائے ، معلوم ہوتا ہے ، فرعون کے زمانہ میں سحر وجادو کا بہت زور تھا اور مذہبی راہ نما عموما شعبدہ باز اور کرشمہ ساز ہوتے تھے جو سادہ لوح قبطیوں اور اسرائیلیوں کو گمراہ کرتے ، ابتداء جب انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھی مسند رشد و ہدایت پر فائز دیکھا ، تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ بھی کاہن یا جادوگر ہیں ، کیونکہ ان کے زمانے میں اس قماش کے لوگ ہادی اور مذہبی قائد خیال کئے جاتے تھے ۔