أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي
کہ ''تم اس بچے (موسیٰ) کو صندوق میں رکھو پھر اس صندوق کو دریا [٢٢] میں ڈال دے۔ دریا اس صندوق کو ساحل پر پھینک دے گا جسے میرا اور موسیٰ کا دشمن اٹھا لے گا۔ پھر (اے موسیٰ) میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی (کہ جو کوئی تمہیں دیکھے پیار کرنے لگے) اور یہ اس لئے کیا کہ میری نگرانی میں تمہاری پرورش [٢٣] ہو۔
(ف1) ام موسیٰ کی جانب وحی کے معنی یہ ہیں کہ بذریعہ الہام ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں صندوق میں رکھ کر بہا دو ، وہ امن وسلامتی کے ساتھ حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل کرے گا ، ام موسیٰ کا ایمان ملاحظہ ہو کہ لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک رہی ہیں کتنا زبردست عقیدہ ہے کس قدر محکم یقین ہے کہ نتائج سے بےپروا ہو کر اپنے بیٹے کو دریا کی موجوں کے سپرد کر رہی ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ کی عنایت دیکھئے کہ اس نے ام موسیٰ (علیہ السلام) کے تقویت ایمان کے ثمرہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شاہی محلات میں پہنچا دیا ، اور تربیت کے لئے یہ سامان کیا ، کہ ماں ہی کو دودھ پلانے کی خدمت سونپی گئی ، جو لوگ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ ہر طرح حیرت انگیز طور پر ان کی مد فرماتا ہے ، ﴿ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى﴾سے غرض یہ ہے ، کہ ابتدائی تمام منزلیں طے کر چکنے کے بعد اب تم اس انداز خاص تک پہنچ گئے ہو ، جہاں ضرور ہے کہ تمہیں اپنی خدمات کے لئے مختص کرلیا جائے ۔ حل لغات: أَنِ اقْذِفِيهِ: قذف سے ہے ، بمعنی ڈال دیتا ، پھینک دینا ۔