سورة مريم - آیت 33

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور اس دن [٣٠] بھی جب میں مروں گا اور اس دن بھی جب میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضرت کا مسیح (علیہ السلام) کا بولنا : (ف ١) بدبخت اور بدشعار یہودیوں نے جب پاکباز مریم پر اعتراض کیا کہ یہ کیا قصہ ہے ؟ تمہاری گود میں یہ کیسا بچہ ہے ؟ تمہارا باپ تو ایسا نہ تھا اور تمہاری ماں بھی یقینا نیک اور صالح تھی ، پھر یہ بچہ کہاں سے آگیا ؟ حضرت مریم (علیہ السلام) چپ ہوگئیں ، اور بچہ کی جانب اشارہ کیا کہ اس سے پوچھو ، غالبا یہ بالکل وجدانی حرکت تھی ، حضرت مریم (علیہ السلام) نے یہ سوچا ہوگا کہ جب خرق عادت کے طور پر بچہ پیدا ہوسکتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کو خاص طور پر پیدا فرمایا ہے تو پھر کیا اس صورت حالات میں اللہ میری برات نہ فرمائے گا ، اور ایسا نہ ہو سکے گا کہ بچہ خود بول کر حقیقت حال واضح کر دے ، یہودی اس جواب پر ہنسے انہوں نے کہا بھلا ہم بچے کو کسی طرح پوچھیں ، یہ اس صغر سنی میں ہمارے شبہات کا جواب کیسے دے سکتا ہے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہونٹ ہلے اور آپ نے پکار کر کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے نبوت کے منصب پر فائز کیا ہے اور کتاب عنایت فرمائی ہے ، میرا وجود قوم کے لئے ہر حالت میں باعث برکت وسعادت ہے میں نماز اور زکوۃ کے تفام پر عمل پیرا رہوں گا ، اور اس کو دنیا میں پھیلاؤں گا والدہ کے حق میں بہتر سلوک کروں گا ، اور میری ولادت اور موت اور اس کے بعد بعثت یہ سب چیزیں میرے لئے اللہ کی جانب سے سل امتی کی باعث ہیں ۔ ظاہر ہے یہ جواب یہودیوں کے لئے حیران کن اور مسکت ہوگا ۔ مسیح (علیہ السلام) کا اس وقت بولنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ابتداء ہی سے استعداد موجود ہوتی ہے اور ان کے نہاں خانہ دماغ میں پیغمبری کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے ، وہ بچپن میں بھی نبوت کی جانب رجحانات رکھتے ہیں اگرچہ وہ اس عہدہ جلیلہ پر فائز نہیں ہوتے ، مگر غیر مرئی طور پر ان میں تمام کمالات نبوت موجود ہوتے ہیں جن کی ایک پیغمبر کو ضرورت ہوتی ہے ،