سورة مريم - آیت 11

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

چنانچہ (جب وہ وقت آگیا) زکریا اپنے حجرہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو انھیں اشارہ سے کہا کہ ’’صبح و شام تسبیح بیان کیا کرو‘‘

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

انسانی تقاضے : (ف ١) اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی سن لی ، اور ان کو بشارت دی اور فرمایا ہاں ضرور ایک سعادت مند لڑکا ہوگا ، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا کیا بڑھاپے میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جوابا ارشاد فرمایا (آیت) ” ھو علی ھین “۔ کہ اس قسم کے خرق عادات ہمارے لئے کچھ بھی دشوار نہیں ، حضرت زکریا (علیہ السلام) اس جواب سے گو مطمئن ہوگئے مگر تقاضائے بشریت سے مزید تسلی کے لئے پوچھا کہ اس وقت سعادت کی علامتیں کیا ہوں گی ؟ کیونکر انبیاء علیہم السلام جہاں نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں اور تائید الہی سے نوازے جاتے ہیں ، وہاں بشری تقاضے بھی ان میں موجود رہتے ہیں ، اور قدرتا ان کے دل میں بھی وہی سوالات پیدا ہوتے ہیں جو ایک انسان کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عدم تکلم “ علامت ہے ، عدم تکلم کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) سے ان دونوں گفتگو کی قوت سلب کرلی جائے اور وہ لوگوں سے مخاطب نہ ہو سکیں اور دوسری یہ کہ عمدا گفتگو سے پرہیز کریں اور ایک قسم کا روزہ رکھیں ، بہرحال مقصد یہ ہے کہ ان اوقات میں حضرت زکریا (علیہ السلام) اللہ کی حمد وثنا میں مصروف رہیں ۔