سورة البقرة - آیت 217

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

لوگ آپ سے حرمت والے مہینہ میں لڑائی کرنے سے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ حرمت والے مہینہ میں جنگ کرنا (فی الواقعہ) بہت بڑا گناہ ہے۔ مگر اللہ کی راہ [٢٨٦] سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے باشندوں کو وہاں سے نکال دینا اس سے بھی بڑے گناہ ہیں اور فتنہ انگیزی قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ (اور یہ سب کام تم کرتے ہو) اور یہ لوگ تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے۔ حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین [٢٨٧] سے برگشتہ کردیں۔ اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے پھر اس حالت میں مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں [٢٨٨] ضائع ہوگئے۔ اور یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) مکہ والے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے انہیں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچا چکے ، اب الٹے مسلمانوں پر معترض ہیں کہ یہ کیوں شہرحرام میں ہم سے نبرد آزماہیں۔ اعتراض کا جواب یہ دیا کہ اشہر حرم کی حرمت وعزت مسلم ، لیکن تمہاری شرارتیں کیا اس جہاد سے زیادہ خطرناک نہیں ؟ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ہر رواداری کے لئے تیار ہے ، مگر حق کی توہین وہ ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ مرتد کے عمل ضائع جاتے ہیں : (ف2) کفر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو اپنا ہمنوا بنالے ۔ کفار مکہ اور یہودیوں نے ارتداد کے لئے ذلیل سے ذلیل وسائل اختیار کئے ، مگر ایمان کے پکے اور عقائد کے مضبوط مسلمان ہمیشہ ایمان کو بچاتے گئے اور وہ خائب وخاسر رہے جو مسلمانوں کے ارتداد کا خواب دیکھا کرتے تھے ۔ ان آیات میں بتایا کہ مرتد جو دین حنیف کا انکار کر دے صراط مستقیم سے دور ہٹ جائے اور جادہ صدق وصفا کو چھوڑ کر نفاق وکفر کی پگڈنڈیوں پر ہولے ، وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ، اس کی کوشش رائیگاں جائے گی اور اس کے اعمال اسے ذرہ برابر فائدہ نہیں پہنچائیں گے ، ارتداد اسلام کا بحیثیت مجموعی انکار کرتا ہے ، اس کی سزا عقبی میں سخت ترین ہوگی ، دنیا میں قتل ہے ، چنانچہ بنی اسرائیل جب موسیٰ (علیہ السلام) کی غیر حاضری میں مرتد ہوگئے اور بچھڑے کو پوجنے لگے تو ﴿فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ کی سزا ان کے لئے تجویز کی گئی ، عرنینن جب حضور (ﷺ) کے زمانے میں مرتد ہو کر بھاگ گئے تو حضور (ﷺ) نے بھی انہیں قتل کی سزا دی ، اور یہ بھی فرمایا کہ’’مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ‘‘کہ مرتد کی سزا قتل ہے ، اس آیت میں بھی ﴿حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا﴾کا لفظ ان کے قتل کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور یہ اس لئے کہ اسلام عقل ودانش کا دین ہے ، وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ سوچ سمجھ کر اسلام کو قبول کرو ، اور جب تک سوفی صدی یقین نہ آجائے ، ایمان نہ لاؤ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسلام کو ترک کرتا ہے تو وہ توہین مذہب کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا قطعی قتل ہونا چاہئے ۔ حل لغات : صَدٌّ: روکنا ۔ يَرْتَدِدْ: ارتداد ، پھر جانا ۔