وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
(اے مخاطب تو انھیں دیکھے تو) سمجھے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ [١٧] سوئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں اور ان کا کتا اس غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر تو انھیں جھانک کر دیکھے تو دہشت کے مارے بھاگ نکلے۔
(ف1) یہاں ایک عرصہ تک یہ لوگ رہے ، اور زہد و ریاضت کی زندگی بسر کی ، آخر ان کا انتقال ہوگیا ، اور ایسی حالتوں میں موت آئی ، کہ یہ لوگ کسی نہ کسی کیفیت عبادت میں مشغول تھے ، کوئی سجدے میں تھا ، کوئی رکوع میں ، کوئی کھڑا تھا ، اور کوئی جھکا ہوا ، اس لئے باہر سے دیکھنے والے کو یہی معلوم ہوتا تھا ، کہ یہ لوگ زندہ ہیں ، اور عبادت میں مشغول ہیں ، حالانکہ حقیقت میں وہ موت کی نیند سو رہے تھے ۔ کتا بھی غار کی دہلیز پر پاؤں پھیلائے بیٹھا تھا ، اور وہ بھی اسی کیفیت میں طعمہ اجل ہوچکا تھا اس سارے منظر کو اس وقت بھی اچھی طرح دیکھا جا سکتا ، جبکہ غور کیا جاتا ، کیونکہ یہ لوگ جس غار میں پناہ گزین تھے ، وہ قدرے تاریک تھا ، اور اول نظر میں تو یقینا دل دہل جاتا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو دہشتناک بنا دیا ہے قرآن حکیم نے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔ ﴿وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا﴾اور ﴿لَوِ اطَّلَعْتَ﴾ میں اس وقت کی حالت بیان فرمائی ہے ، یعنی اگر تم اس وقت موجود ہوتے ، تو تم بھی پہلی نظر میں انہیں زندہ خیال کرتے ، اور جب تمہیں معلوم ہوجاتا ، کہ یہ زندہ نہیں مردہ ہیں تو مارے خوف کے بھاگ جاتے ۔ حل لغات : أَيْقَاظًا: جیتے جاگتے ، جمع یقظ بمعنی بیدار رُقُودٌ: موت کی نیند سوئے ہوئے ، جمع راقد بمعنی سونے والا خواب کنندہ ۔