قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
آپ ان سے کہئے کہ : اللہ (کہہ کر) پکارو یا رحمٰن [١٢٨] (کہہ کر) جو نام بھی تم پکارو گے اس کے سب نام ہی اچھے ہیں۔ اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز [١٢٩] سے پڑھئے نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجئے۔
ہرزبان میں خدا کا نام لو ! (ف ٣) قرآن حکیم تمام بنی آدم کی مشترکہ کتاب ہے ، اس لئے اس میں یہ التزام ہے کہ تمام اختلاف افگن چیزوں کی مخالفت کرے ، اور روح مذہب کے مرکز پر سب کو جمع کر دے ، اور ان تمام تفریقات کو مٹا دے ، جن کی وجہ سے ردائے انسانیت تار تار ہوجاتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے ، کہ اللہ کو پکارو ، یا رحمن کو یاد کرو ، سب جائز ہے ، بشرطیکہ خدا کے جمال وجلال کو ملحوظ رکھا جائے یعنی یہ لفظی اختلاف کہ ” اللہ “ تو ہمارا خدا ہے اور رحمن مسلمانوں کا خدا ہے ، ناقابل التفات ہے ، سارے اچھے نام اور تمام اچھی صفتیں اللہ کے ساتھ متصف ہو سکتی ہیں ، تم خدا کو جس نام کے ساتھ چاہو ، یاد کرو ، یہ لفظی اختلافات ہیں ، خدا بہرحال ایک ہے اور وہی سب کا مالک وخالق ہے ، اور سب کے لئے یکسان لائق احترام وعبادت ہے ، ان اختلافات اسمی سے اس کی ذات میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا ، کیا پانی کو ، آب ’ ماء ، اور واٹر کہہ دینے سے اس کی حقیقت بدل جاتی ہے ۔ جب نہیں بدل جاتی ، تو اللہ کو مختلف زبانوں میں تعبیر کرنے سے کیوں کفر لازم آئے ؟ بات یہ ہے کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت محترم اور لائق فہم تخیل پیش کیا ہے ، جس میں تجسم وحلول کا شائبہ تک نہیں ، اس لئے اگر اس تخیل کو پیش نظر رکھا جائے ، تو پھر مختلف زبانوں میں اس کا نام لینا قابل اعتراض نہیں رہتا ۔ آداب دعاء میں یہ ہدایت فرمائی کہ نہ تو بلند آواز میں ہو ، کہ خشوع وخضوع پیدا نہ ہو سکے ، اور نہ اس قدر آہستہ ہو ، کہ کان بھی نہ سنیں ، بلکہ درمیان راہ اختیار کی جائے ، کیونکہ اسلام تو کہتے ہی اس طریق کو ہیں جو وسط اور درمیانی ہو ۔