سورة الإسراء - آیت 60

وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا پروردگار لوگوں کو گھیرے [٧٥] ہوئے ہے۔ اور جو نمائش [٧٦] (واقعہ معراج) ہم نے آپ کو دکھائی اور وہ درخت جس پر قرآن [٧٧] میں لعنت کی گئی ہے انھیں ان لوگوں کے لئے بس ایک آزمائش بنا رکھا ہے۔ ہم انھیں ڈراتے رہتے ہیں مگر تنبیہ ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کرتی جاتی ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مدارک روحانیہ کا ارتقاء : (ف1) اس آیت بتایا ہے کہ معراج جسمانی کا معجزہ قابل انکار نہ تھا ، مگر تم نے انکار کیا ، حالانکہ اس میں کیا استحالہ ہے ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ لوگ اس حیرت انگیز ارتقاء سے عبرت حاصل کرتے ، اور حضور (ﷺ) کے مدارک روحانیہ کی برتری کے قائل ہوتے نہ یہ کہ انکار کرتے ہو ۔ اسی طرح قرآن میں شجر زقوم کا ذکر کیا گیا ، اور تمہیں اعتراض سوجھا ، کہ آگ میں کیونکر اشجار پیدا ہو سکتے ہیں ، حالانکہ تم وہاں کی آگ کی نوعیت سے واقف نہیں ، اور تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کے سب کچھ اختیار میں ہے ۔ جب ان باتوں نے تم میں سوائے انکار کے اور کوئی جذبہ پیدا نہیں کیا تو مزید معجزات سے کیا حاصل ۔ حل لغات: الرُّؤْيَا: حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں مشاہد ہ عینی کو رؤیت سے تعبیر کیا ہے ۔ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ: کھانے کی ہر چیز جو مرغوب ہو ، عرب اسے زقوم اور ملعون کہتے تھے ۔