وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ دو ورنہ خود ملامت زدہ [٣٤] اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔
(ف2) اس آیت میں مسلمان کو اعتدال کے ساتھ رہنے کی تلقین کی ہے ، اور اسے کہا ہے کہ اپنی مالی حالت کا جائزہ لیتا رہے ۔ نہ اس قدر شاہ خرچ ہو ، کہ جو کچھ ہاتھ لگے صرف کردیا جائے ، اور بعد میں پشیمانی اٹھانا پڑے ، اور نہ بخل وامساک کا اظہار ہو ، بین بین رہے ، افسوس مسلمان آج خرچ کے معاملہ میں بالکل محتاط نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بکمال مہربانی ہر بات سمجھا دی ہے ۔ مسلمان محنت سے روپیہ کماتا ہے ۔ اور رسم ورواج کی پابندیوں میں اڑا دیتا ہے ۔ اور وہ روپیہ جو اللہ کی نعمت ہے محض فضول باتوں میں ضائع ہوجاتا ہے ، آج کسب واکتساب کے جس قدر اسباب ہیں ، وہ سب مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں مگر پھر بھی مسلمان مفلس ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آمد وخرچ میں تناسب نہیں ، وہ آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا ہے ، اس لئے ہمیشہ محتاج رہتا ہے ۔ چو خلت نیست خرچ آہستہ زکن ! کہ می گوئیند ملا حان سرودسے ! بکوہستان اگر باران نہ بارد ! بہ سالے دجلہ گردوخشک رودے ، حل لغات : مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ۔ بخل کی تشبیہ ہے ، گویا بخیل کے ہاتھ کشادہ نہیں ہوتے ۔