سورة البقرة - آیت 198

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اگر تم حج کے دوران اپنے پروردگار کا فضل [٢٦٧] (رزق وغیرہ) بھی تلاش کرو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب تم عرفات [٢٦٨] سے واپس آؤ تو مشعر الحرام [٢٦٩] (مزدلفہ) پہنچ کر اللہ کو اس طرح یاد کرو [٢٧٠] جیسے اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو تم راہ بھولے ہوئے تھے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ایام حج میں تجارت : (ف2) اسلامی عبادات میں اور دیگر مذاہب کے نظام عبادت میں ایک بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ اسلامی عبادات صرف ذکر خدا تک محدود نہیں ، بلکہ وہ وسیع تر مفہوم اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے ، اسلامی عبادت ذکر الہی کے علاوہ ضروریات تمدن پر حاوی ہے ، اس لئے حج میں جو خالصۃ ذکر وریاضت کی ایک اعلی صورت ہے ، تجارت کی اجازت دی اور فرمایا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، بلکہ اپنے فضل کے لفظ سے تعبیر کرکے ترغیب دی کہ مسلمان اس عظیم الشان اجتماع سے مادی فائدہ بھی اٹھائیں اور یہ اجتماع ہر لحاظ سے مسلمانوں کے لئے باعث برکت وسعادت ہو ۔ (ف3) عربوں کا قاعدہ تھا کہ جب مناسک حج سے فارغ ہوتے تو ایک مجلس مفاخرہ قائم کرتے جس میں اشعار پڑھتے اور اپنے اپنے آباؤ واجداد کے مناقب وفضائل بیان کرتے جس سے حج کا مقصد بالکل فوت ہوجاتا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فخر وغرور کے یہ نعرے جائز نہیں ، حج کا مقصد تو اعلائے کلمۃ اللہ ہے ، اس لئے اسی کا ذکر اور اسی کی تمحید وتقدیس میں تمہاری زبانیں مصروف رہنی چاہئیں اور خدا ئے بزرگ وبرتر یقینا تمہارے آباؤ اجداد سے زیادہ حمد وثنا کا استحقاق رکھتے ہیں ، اس لئے تم کیوں غیر اللہ کی مدح وستائش میں اپنی زبانوں کو آلودہ کرتے ہو ، کیونکہ تمہارے دلوں میں خدا کی محبت نہیں ۔ حل لغات : أَفَضْتُمْ: مصدر افاضۃ ۔ لوٹنا ، پھرنا ۔