فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا
پھر جب ہمارا پہلا وعدہ آگیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے بڑے جنگ جو بندے لاکھڑے کئے جو تمہارے شہروں کے اندر گھس (کر دور تک پھیل) گئے۔ یہ (اللہ کا) وعدہ تھا جسے [٦] پورا ہونا ہی تھا۔
بنی اسرائیل کی تباہی : (ف ١) اللہ کا قانون ہے کہ جب قوموں کا اخلاق بگڑ جائے ، فواحش کا ارتکاب کھلم کھلا ہونے لگے ، دین کا اعزاز واحترام دلوں سے اٹھ جائے شہوت کا زور ہو ، تو اس قوم کی ذلت کے سامان پیدا کردیتا ہے ، رسوائی کو قریب کردیتا ہے ، اور کسی دوسری زبردست قوم کو ان پر مسلط کردیتا ہے تاکہ غلامی کی صعوبتوں سے دوچار ہوں اور انہیں آزادی کے ناجائز استفادہ کا نتیجہ معلوم ہو ، تاکہ وہ یہ جائیں کہ اللہ سے بےاعتنائی ناقابل عفو جرم ہے ۔ حل لغات : سبحن : تقدس کے لئے ہے یعنی معراج کے سلسلہ میں جس قدر اعتراضات عقل کی ماندگیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اللہ ان سے اعلی اور بلند ہے ۔ بنی اسرائیل نے جب حق وصداقت سے روگردانی کی اور طرح طرح کی برائیاں ان میں پھیل گئیں ، تو وہ جالوت کے محکوم بنا دیئے گئے ، اس نے ان کو سخت سزائیں دیں ، پھر توبہ واستغفار اور رجوع وانابت کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس سے جہاد کیا ، اور فتحیاب ہوئے اس کے بعد پھر بنی اسرائیل بگڑ گئے ، ان میں بدستور دین کی بےحرمتی ہونے لگی اور کھلے بندوں اخلاق کی حدوں سے تجاوز کیا جانے لگا ، تو اللہ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا ، اس نے ہزاروں کو تیغ وخنجر کے گھاٹ اتارا ہزاروں کو اسیر بنایا ، لاکھوں روپے کا سونا چاندی لوٹا بیت المقدس کو ڈھایا ، ان کی قیمتی املاک چھین لیں ، عین بیت المقدس میں بنی اسرائیل کو ذبح کیا ، عورتوں کی بےحرمتی کی ، توریت کے نسخے آگ میں پھونک دیئے ، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا تاکہ یہ لوگ ذلیل ہوں ان کی جھوٹی مذہبیت کو صدمہ پہنچے ، اور یہ اپنی بدمعاشیوں کا مزا چکھیں ، اس کے بعد پھر ان کی سنی گئی ، اور انہیں ان ذلتوں سے مخلصی ملی ، کیونکہ وعدہ یہ تھا کہ جب تک سیدھے رہو گے اللہ کا فضل تم پر سایہ افگن رہے گا اور جب بگڑو گے ، اللہ بھی نظریں پھیر لے گا ۔ حل لغات : اولی باس : اصحاب قوت و شدت ، جاسوا : پھیل گئے