ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(اے نبی)! آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت [١٢٨] اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے
(ف ١) دعوت وبشارت کا صحیح ترین اصول بتایا ہے یعنی جب خدا کے دین کی طرف لوگوں کو بلایا جائے تو نہایت حکیمانہ انداز میں موعظت اور پند کے طریق پر صلح جوئی اور رواداری کے ساتھ اگر اختلاف کا موقع آئے تو احسن طریق سے اس کو نبھایا جائے مقصد جدل وتعصب نہ ہو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی طریق دعوت وتبلیغ تھا ، یہی وجہ تھی ، لوگ کھچے ہوئے اسلام کی قریب آتے ، اور اسے قبول کرلیتے حضور جب مخالف کو سمجھاتے تو ایسے جاذب طریق سے کہ دل میں اتر جائے ۔ آج حضرات علماء کے اخلاق بگڑ چکے ہیں وہ تبلیغ واشاعت کی نفسیات سے آگاہ نہیں ، وہ نہیں جانتے قول بیع کیا ہے کس طریق سے لوگوں کو حق وصداقت کی طرف بلانا چاہئے قاعدہ ہے کہ اچھی بات بھی برے انداز میں پیش کیجئے تو لوگ ٹھکرا دیں گے اس لئے ضروری ہے کہ کلمہ حق کا اظہار کیا جائے مگر سلجھے ہوئے انداز میں جس میں زمانہ کی نفسیات کی رعایت نہ ہو ۔