سورة البقرة - آیت 196

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور اگر اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرہ (کی نیت کرو تو اسے) پورا کرو۔ اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی تمہیں میسر آسکے وہی کر دو۔ [٢٦٠] اور اپنے سر اس وقت تک نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے [٢٦١] پر نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف [٢٦٢] ہو (تو سر منڈوا سکتا ہے بشرطیکہ) روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کر دے۔ پھر جب تمہیں امن نصیب ہوجائے (اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ سکو) تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر آ سکے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہوجائیں گے۔ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد الحرام (مکہ) کے باشندے نہ ہوں۔ [٢٦٣] اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

آداب حج : (ف1) حج فرض ہے اور عمرہ محض تطوع ، عمرہ دراصل آداب زیارت کا نام ہے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ حج وعمرہ جب شروع کیا جائے تو پھر اس میں شروط ولوازم کا خیال رکھا جائے اور کوئی بات ایسی نہ اختیار کی جائے جس سے نقص لازم آئے اور اجر وثواب میں کمی ہو ۔ اگر راستے میں کسی سبب سے زائر یا حاجی رک جائے اور آگے نہ جا سکے تو وہیں احرام کھول دے اور میسر قربانی کر دے ۔ احصار میں چونکہ لغۃ اختلاف ہے ، اس لئے قضا میں بھی اختلاف ہے بعض کے نزدیک احصار عام ہے ، مرض اور دشمن دونوں اس میں داخل ہیں اور بعض کے نزدیک صرف دشمن ، بہرحال جب لغوی معنوں میں وسعت موجود ہے تو پھر اس کو قائم رکھنا چاہئے اس کے بعد ایک عام حکم ہے کہ جب تک قربانی کا جانور حرم میں نہ پہنچ جائے تم احرام باندھے رہو ، البتہ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ سر منڈانا چاہے تو پھر وہ بطور فدیہ کہ تین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور یا ایک بکری ذبح کرے جیسا کہ کعب بن عجرہ (رض) کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ جب اس کے سر میں جوئیں پڑگئیں تو حضور (ﷺ) نے سرمنڈانے کی ان شرائط کے ماتحت اجازت دیدی جو اوپر مزکور ہیں۔ حج کی تین قسمیں : (ف2) حج کی تین قسمیں ہیں ۔ افراد ، تمتع اور قران ۔ افراد وہ حج ہے جس میں قران وتمتع نہ ہو ۔ تمتع کی صورت یہ ہے کہ شہر حج میں کوئی عمرہ کے آداب سے ظاہر ہوجائے پھر انہیں مہینوں میں حج کا احرام باندھے ۔ قران یہ ہے کہ نسکین کو اکٹھا ادا کرے ۔ فقہاء کا اختلاف ہے اس امر میں کہ تینوں صورتوں میں افضل کون ہے ، بعض کے نزدیک افراد افضل ہے ، بعض کے نزدیک تمتع اور بعض کے نزدیک قران ، ان آیات میں تمتع کا ذکر ہے اور یہ اس لئے کہ قریش تمتع کو درست نہیں جانتے تھے ، تمتع میں چونکہ ترتیب حج پر اثر پڑتا ہے اس لئے ہدی ضروری قرار دی ہے جو شخص معذور ہو یعنی وہ ہدی نہ لاسکے وہ دس روزے رکھے ، تین ایام حج میں اور سات لوٹ کر یا لوٹتے ہوئے اس میں اختلاف ہے ۔ ﴿تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ﴾: سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ کہہ دینے کے بعد کاملہ کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ کیا کوئی عشرہ ناقصہ بھی ہوتا ہے ؟ جب اعداد میں تعیین یقینی و قطعی ہے تو پھر اس زیادت کا فائدہ ؟ جواب یہ ہے کہ عشرہ کی صورت میں ہوسکتا تھا کہ کوئی تغیر کا مفہوم لے لے یعنی یہ سمجھ لے کہ تین یا سات میں جس صورت کو چاہے ، اختیار کرلے ، حالانکہ مطلب یہ نہیں ۔ مبرد کا خیال ہے ، یہ تاکید ہے جو عربی اصول کے بالکل مطابق ہے ، عرب کہتے ہیں ۔ کتبت بیدی حالانکہ ہمیشہ ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ مقصد یہ ہو کہ اس میں کوئی کمی نہ ہوگی ، یہ روزے قربانی کی پوری نیابت کریں گے ، ذلک کا مشارالیہ یا تو نفس تمتع ہے اور یا حکم ، پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مقامی لوگوں کو تمتع کی اجازت نہیں ، امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے ، دوسری صورت میں مقصد یہ ہوگا کہ مقامی آدمی کے لئے تمتع کی صورت میں قربانی ضروری نہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ اسی طرف گئے ہیں اس کے بعد تقوی کی طرف سب کو دعوت دی ہے اور فرمایا ہے کہ عدم تقوی، شعائر اللہ کی توہین ناقابل برداشت ہے اور موجب غضب الہی ہے ۔