سورة البقرة - آیت 195

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت [٢٥٨] میں نہ ڈالو اور احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند [٢٥۹] کرتا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

بزدلی ہلاکت ہے : (ف2) جہاد کے لئے جس طرح سرفرشی ضروری ہے ، اسی طرح مالی اعانت بھی لابدی ہے ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قومیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ کرتی ہیں ان کی ہلاکت قطعی ہے ان کا پنپنا اور دنیا میں رہنا محال ہے قوموں کی زندگی ان کے جذبہ ایثار وقربانی سے وابستہ ہے ، اس لئے وہ لوگ جو قومی احساس نہیں رکھتے جن کے دل قوم کے مصائب پر نہیں پسیجتے وہ غورکریں کہ ان کے زندہ رہنے کی کیا صورت ہے ۔ بعض فریب خوردہ لوگ ﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد میں شرکت نہ کی جائے اور جان بچائی جائے اس لئے کہ ہلاکت میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے وہ نہیں سوچتے کہ سیاق جہاد میں اس کا ذکر کرنا اس پر دال ہے کہ جہاد میں شرکت نہ کرنا اور مال ودولت سے حد سے زیادہ پیار کرنا ہلاکت ہے ، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) جو اسلام کے ایک باہمت مجاہد ہیں فرماتے ہیں کہ ہم (یعنی صحابہ (رض) عنہم اجمعین) ہمیشہ بزدلی اور تکلف عن الجہاد کو ہی ہلاکت سمجھتے رہے ، وہ موت وہلاکت جو خدا کی راہ میں آئے جس سے اسلام اور مسلم کی عزت میں اضافہ ہوتا ہو ‘ ہزار زندگی سے بہتر ہے اور وہ زندگی جو بزدلی اور آسائش میں گزرے موت سے بھی بدتر ہے ۔