وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اور جس دن ہم ہر امت میں سے انہی میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان پر ہم آپ کو گواہ [٩٠] لائیں گے۔ اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت [٩١] موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت [٩٢] اور خوشخبری ہے
آخری شہادت : (ف ١) جب تمام پیغمبر شہادتیں دے چکیں گے تب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے ، اور یہ شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے اپنے فرائض منصبی کو باحسن وجوہ پورا کیا ہے ۔ تمام شہادتوں کے بعد آپ کی شہادت ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ پر نبوت کا اختتام ہوچکا ہے ، اور اب کسی دوسرے نبی کے لئے توقع وامید نہیں ، کیونکہ آپ سب کے آخر میں شہادت دیں گے آپ سارے نبیوں کے نبی اور کل پیغمبروں کے پیغمبر ہیں ، آپ ہی عنایات الہیہ کے آخری مرکز التفات ہیں ، آپ کے بعد نبوت کے دروازے بند ہیں ، کیونکہ قرآن کامل ہے ، اس میں ضروریات دینی کی سب چیزیں مذکور ہیں ، اب تشریع وتہذیب کے لئے مزید انتظار کی حاجت نہیں ۔ (آیت) ” تبیانا لکل شیئ“۔ یعنی ضروریات دینی کی تمام اصولی چیزیں قرآن میں مذکور ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ سب کچھ دنیا جہان کی تفصیلات اس میں بتائی گئی ہیں ، کیونکہ یہ کتاب ہدے رشد وہدایت کے لئے صحیفہ ہے اس میں ہدایت انسانی کا پورا پورا ذخیرہ موجود ہے ، قرآن میں لفظ کل کا استعمال عربی انداز کے مطابق ہے ، اس لئے استغراق مقصد نہیں ، بلکہ عموم مقصود ہے ۔