وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ
ان لوگوں نے اللہ کے لئے بیٹیاں [٥٤] تجویز کیں حالانکہ وہ ایسی باتوں سے پاک ہے اور ان کے لئے وہ کچھ ہے جو یہ [٥٥] خود چاہیں (یعنی بیٹے)
خدا کی صفات میں تنزیہہ لازم ہے ۔ (ف ١) حجاز میں مختلف مذاہب رائج تھے ، کچھ دہریئے تھے ، جو خدا کے قائل ہی نہ تھے ، کچھ مشرک تھے ، مشرکین کی بھی کئی قسمیں تھیں ، کچھ تو بتوں کو پوجتے ، کچھ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ، ان آیات میں دوسرے گروہ کا ذکر ہے ۔ قبیلہ خزاعہ وکنانہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے تھے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ لوگ بھی عجیب ہیں جس چیز کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسے خدا کی جانب منسوب کرتے ہیں ان کی اپنی کیفیت یہ ہے کہ بچیوں کے انتساب سے گھبراتے ہیں مگر ان سے کوئی کہہ دے کہ تمہارے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو تیور بدل جاتے ہیں چہر سیاہ پڑجاتا ہے ، مارے شرم وندامت کے لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ، اور یہ سوچتا ہے ، کہ کیونکر اس کو زمین میں گاڑ دے ، اور اس ذلت سے رہائی حاصل کرلے ۔ مقصد یہ نہیں کہ قرآن عربوں کی طرح لڑکیوں کو ذلیل خیال کرتا ہے اور اس حقارت آمیز سلوک میں ان کا ہم نواہے ، بلکہ غرض یہ ہے کہ انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرے انہیں یہ بتائے کہ جس صورت حال کو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ اللہ کے لئے کیونکہ بہتر صورت ہو سکتی ہے ، کیونکہ اللہ کو اپنے سے اعلی اور برتر قرار دیا جاتا ہے اس لئے تنزیہ لازم ہے ۔