سورة الحجر - آیت 88

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

لہٰذا ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو جو سامان حیات دے رکھا ہے ادھر نظر اٹھا کر [٤٨] بھی نہ دیکھیں اور نہ ہی ان کے لئے غمزدہ ہوں اور ایمان لانے والوں سے تواضع سے پیش آئیے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضور (ﷺ) کی سیرت کے دو پہلو : (ف3) قرآن حکیم کے جس قدر احکام میں حضور (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (ﷺ) کے عمل کی یہ تصویر ہے ، اور امت کو ان کے اسوہ کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس آیت میں حضور (ﷺ) کی سیرت کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں ، ایک تو یہ کہ آپ دنیا کے تکلفات پر ریجھے ہوئے نہیں طبیعت میں انتہاء درجہ کا استغنا ہے ، اور ایک یہ کہ آپ مسلمانوں کے لئے سراپا رحمت ہیں آپ کے دل میں امت کے لئے شفقت کا بےپناہ جذبہ موجزن ہے ۔ غور فرمائیے ، حضور دعوت عام دے چکے ہیں ، مخالفت کی آگ بھڑک چکی ہے ، لوگوں نے ابو طالب سے کہا اپنے بھتیجے کو سمجھا لو ، ورنہ ہم تم سے بھی تعرض کریں گے ، ابوطالب نے آکر حضور (ﷺ) کو حقیقت حال سے آگاہ کیا آپ نے فرمایا چچا اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ ماہتاب رکھ دیں ، جب بھی میں دعوت توحید سے نہیں رک سکتا ، کس قدر استغنا ہے قوم سونے چاندی کے ڈھیر نذر کرتی ہے حسین وجمیل رشتے پیش کئے جاتے ہیں مگر حضور آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ، رحمت ورافت کا یہ عالم ہے ، کہ وہ لوگ جو منافق ہیں ، آپ کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں ، ان سے ہر طرح اغماض وچشم پوشی کرتے ، عبداللہ ابن ابی مرتا ہے ، تو آپ پیراہن مبارک تبرک کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔