نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(اے نبی) ! میرے بندوں کو خبر دے دیجئے کہ میں معاف کردینے والا اور رحم کرنے والا ہوں
خدا اصل میں غفور ورحیم ہے ! (ف ١) ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرمایا ہے کہ صفات میں حقیقتا عفو ومغفرت ہے ، اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہی ہیں کہ اس کے بندے ہمیشہ اس کے انعامات سے متمتع رہیں ، اور اس کی رحمتیں ابدا اس کے بندوں پر چھائی ہیں ، مگر جب بندے دائرہ عبودیت سے نکل جائیں ، اور اللہ کے کرم وعفو سے استفادہ نہ کریں تو پھر اس کے غضب میں جوش پیدا ہوتا ہے اور اس کا غصہ نافرمانوں پر بھڑکتا ہے ، یہ غصہ اور غضب بھی درحقیقت غفران ورحمت کا نتیجہ ہے ، جس طرح والدین ناراض ہوتے ہیں اور ان کی ناراضگی میں بھی شفقت کا ایک رنگ ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ جو والدین سے زیادہ رحیم ہے ، جب ناراض ہوتا ہے تو اس کی ناراضگی میں بھی الوان شفقت کی جھلک ہوتی ہے ۔ یہ عجب لطیفہ ہے کہ رحمت کو تو مؤکد ترین انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔ (آیت) ” انی ، انا ، وغفور ، ورحیم “ ، کی تکرار ، اور پھر الف لام کے ساتھ تعرفی وتخصیص ، مگر عذاب الیم کو بیان کرنے میں اس قدر تاکیدات کا اظہار نہیں فرمایا ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ رحمت کا پہلو بہت غالب ہے ، اس کا دریائے رحمت جب جوش میں آجائے تو پھر عذاب وثواب کس قطار وشمار میں ۔ حل لغات : غل : کینہ ، خیانت ، وکدورت ، سرر : جمع سریر ، تخت ، نصب : تکان ، تھکن ، تکدر باتکلیف وجلون : خوفزدہ ۔