قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تجھے مہلت دی جاتی ہے
شیطان کی وجہ تخلیق : (ف ١) شیطان کو سجدہ نہ کرنے کی یہ سزا ملی کہ ہمیشہ کیلئے معتوب الہی ہوا ، اسے حکم دیا گیا ، کہ تم اب آسمان کی وسعتوں سے نکل جاؤ اور مکرو فریب کے لئے زمین پر رہو ، تمہیں قیامت تک مہلت ہے اپنی شیطنت کو بروئے کار لاؤ ، پوری قوت کے ساتھ اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرو ، یاد رکھو وہ لوگ جو پاکباز اور متقی ہیں ، وہ تیری دستبر سے ہمیشہ بالا رہیں گے ، اور نفوس قدسیہ کو گمراہ نہیں کر سکوگے ، سوائے ان چند شریر النفس لوگوں کے جو تیرے ہم خیال ہیں ، اور کوئی تیری دوستی کا دم نہیں بھرے گا اور بالاخر تم سب لوگ جہنم کا ایندھن بنوگے ، شیطان اپنے تمام گروہ کے ساتھ جہنم میں داخل ہوگا ، اور کوئی قوت انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکے گی ۔ اس مقام پر دو شبہے قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں ، ایک یہ کہ اللہ نے شیطان کو کیوں قیامت تک مہلت دی ، کہ وہ اس کی بھولی بھالی مخلوق کو گمراہ کرتا رہے ، کیا وہ گمراہی کو پسند کرتا ہے ؟ اور کیا اسے شیطان کے مشاغل محبوب ہیں ؟ دوسرے یہ کہ شیطان کو آخر نافرمانی کی جرات کیوں ہوئی ، جب کہ وہ جناب باری کے بالکل قریب تھا ، نافرمانی کا ارتکاب تو اس وقت ہوتا ہے جب دوری کے حجاب دل پر چھائے ہوں ، ابلیس جیسی شخصیت نے جس کو قرب حاصل تھا ، جو خدا سے بالمواجہ باتیں کر رہا ہے ، کیونکہ انکار کیا ؟ پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ نے مختلف چیزیں پیدا کی ہیں اور اس اختلاف وتنوع میں ہی دنیا کی زندگی مستور ہے ، دن پیدا کیا تو ساتھ رات کی تاریکی لگا رکھی ہے ۔ پھولوں کی پتیاں پیدا کی تو کانٹے بھی ہیں ، عسل ولبن کی اگر فروانی ہے تو حنطل وزقوم بھی ہے ، غرض کہ دنیا کی رونق اس کو قلمونی پر موقوف ہے ، شیطان کا وجود انسان کے ساتھ ساتھ ایسا ہی ضروری ہے جیسے آفتاب کے بعد تاریی اور ظلمت کی حکمرانی ، پھول کے ساتھ کانٹے اور شہد کے ساتھ زہر ۔ شیطان نے انکار اس لئے کیا کہ اس کی آنکھوں پر بھی غرور وحسد کے پردے پڑگئے ، اسے گو قرب حاصل تھا ، مگر پھر بھی بہت سے حجاب ایسے تھے ، جن کی وجہ سے گمراہ ہوا ، ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جیسے بعد و حجاب ہے ، اسی طرح فرشتوں اور اللہ کے درمیان بھی بےشمار پردے حائل ہیں ، جن کی تفصیل کو ہم نہیں جانتے اسلئے شیطان کی گمراہی تعجب خیز نہیں ۔ حل لغات : الغوین : گمراہ ، غوایۃ سے مشتق ہے ۔