وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ
اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں [٩٨] ان میں سے اکثر وگ ایمان لانے والے نہیں
پیغمبر کی آرزو : (ف ١) یعنی اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جہاں تک تمہاری آرزو اور خواہش کا تعلق ہے ، وہ یہی ہے کہ یہ لوگ ایمان وعمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوجائیں ، مگر ان کی فطرت کا تقاضا یہ ہے ، کہ رحمت خداوندی سے بہرحال دور رہیں ، اب ہدایت پائیں ، تو کیونکر ؟ تو سبب ونوررحمت اور غایت شفقت کے یہی چاہتا ہے کہ ان میں کوئی شخص بھی جہنم میں نہ جائے مگر انکو ضد ہے کہ جہنم میں ہی جائیں گے ، ایسی حالت میں اصلاح کی کب توقع ہو سکتی ہے ، فرمایا اصل مرض یہ ہے کہ دلوں پر غفلت وبے توجہی کے پردے پڑے ہیں ، ورنہ یہاں آسمان اور زمین کی مخلوق میں ہر چیز بجائے خود ایک آیت اور دلیل ہے ، اگر یہ غور وفکر سے کام لیں اور خدا دماغ پر زور ڈالیں ، تو انہیں معلوم ہوجائے کہ یہ کونین کی نعمتیں جو حضرت انسان کو میسر ہیں ، مفت میں نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ متقاضی ہیں حمد وستائش اور شکر ومدح کی ، مگر یہ ہیں کہ کمال بےالتفاتی سے گزر جاتے ہیں ، انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ اس عالم کو کتم عدم سے وجود میں لانے والا خدا ہم سے عبادت کا متوقع ہے ، اور وہ عبادت بھی محض ہماری اصلاح کے لئے ہے ، فرمایا آخر یہ لوگ اس درجہ مطمئن کیوں ہیں ، کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر نہیں آئے گا جو ان کو ڈھانپ لے یا ناگہاں قیامت نہیں آئے گی ، یہ بےخوفی ، یہ بےپرواہی اور تغافل آخر کیوں ہے ؟ حل لغات : اجر : یعنی دنیوی معاوضہ :