إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
البتہ جن لوگوں نے (اس کام سے) توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی اور (جو بات چھپائی تھی اس کی) وضاحت کردی [١٩٩] تو میں ایسے ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں ہر ایک کی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہوں
(ف ١) خدا تعالیٰ کی جہاں اور صفات حسنہ ہیں ‘ وہاں اس کا تواب ورحیم ہونا بھی ایک صفت ہے یعنی وہ ہمارے گناہوں کی توبہ ‘ گناہوں سے کامل نفرت کے بعد بخش دیتا ہے ، ان آیات میں یہودیوں کو دعوت استغفار ہے کہ وہ اگر سچے دل سے اپنی بداعمالیوں کا اقرار کرلیں اور آئندہ کے لئے اصلاح کرلیں اور پھر اپنی تمام شرارتیں جو انہوں نے کتاب کی تحریف کے سلسلہ میں کی ہیں ۔ ظاہر بھی کردیں تو اللہ انہیں اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا اور ان کے گناہ معاف کر دے گا ۔ اس لئے کہ گناہ کرنے سے خدا کی ذات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ سعی کرنے سے اس کی خدائی میں کچھ اضافہ ہوتا ہے ، یہ سب اعمال تو انسان کی اپنی اصلاح کے لئے ہیں ، اس لئے بڑے سے بڑا گناہ کرنے کے بعد بھی اگر ہم اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں ۔