أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمتیں برستی ہیں ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوتے ہیں
بلند نصب العین : (ف1) الہی کتب کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ انسان کو کشاکش ہائے حیات کے لئے پوری طرح تیار کر دے ، یعنی اس کے دل ودماغ کو اتنا بلند اور آمادہ صبر کر دے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت بھی مرکز عقل ودانش سے نہ ہٹیں ، قرآن حکیم نے اس مقصد کو جس خوبی سے پورا کیا ہے ، دنیا کی کوئی کتاب اس کی اس میں شریک وسہیم نہیں ، قرآن حکیم کا نظریہ حیات یہ ہے کہ دنیا میں مصائب وحوادث کا وقوع فطری اور ناگزیر ہے ، کبھی خوف وہراس سے دل دہل جاتے ہیں اور کبھی فاقہ وافلاس سے چہروں پر پژمردگی طاری ہو جاتی ہےاور پھر کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ عزیز جانوں کا ضیاع ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ غرضکہ جب تک اس دنیا میں ہیں ‘ ان مصائب سے خلاصی نہیں ۔ البتہ وہ جو ” صابر “ ہیں ، انہیں کوئی خطرہ نہیں ۔ ان کے لئے یہ ابتلاء امتحان کا یہ خارمستان بھی گل کدہ عیش ہے ، کیونکہ وہ اپنی ذہنی افق کو اس درجہ بلند ابتلا کرلیتے ہیں کہ وہاں مصائب کا کوئی خیال تکدر پیدا نہیں کرسکتا ، اس لئے یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی اور موت سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس لئے اگر سکھی ہیں تو بہرحال اس کو اپنے فرائض عبودیت سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، اس ایمان کے بعد کوئی بڑے سے بڑا دکھ بھی تکلیف دہ نہیں ہوسکتا ، اس لئے الم کا تعلق ہونے والے واقعات سے نہیں ، بلکہ احساسات سے ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اس قسم کے لوگ ہی راہ راست پر ہیں اور یہی وہ ہیں جو اللہ کی رحمتوں کے سزاوار اور مستحق ہیں ۔