سورة یوسف - آیت 34

فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

چنانچہ اس کے پروردگار نے یوسف کی دعا قبول [٣٤] کرلی اور عورتوں کے مکر کو یوسف سے دور رکھا بیشک وہ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عزیزہ مصر کا تو یہ جواب دیا ، کہ میں جیل میں جانا پسند کرتا ہوں مگر بہ دعوت معصیت قبول نہیں اور ان عورتوں کے متعلق جو دیدہ حیرت بن کر یوسف کو تک رہی تھیں ، اور چاہتی نہیں کہ کسی طرح ہماری کوئی ادا اسے پسند آجائے ، یہ دعا مانگی ، کہ اللہ ان نازک مواقع پر تو ہی ہے جو اپنے بندوں کو گناہوں سے بچاتا ہے ، جب چاروں طرف سے معصیت کے بادل گھر آئیں ، تو وہی ہے جو پاکدامنی کی توفیق مرحمت فرماتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دعا کرنا اور برائی سے متاثر نہ ہونا انتہا درجے کی خدا پرستی ہے ۔ غور کرو ، خوش جمال عورتوں کا براجما بیٹھا ہے ، اور عشق ومحبت کے تیر برسائے جا رہے ہیں ، آتش نفس کو بھڑکایا جارہا ہے مگر وہ اللہ کا بندہ پیشگاہ جلالت میں دست بدعا ہے کہ خدایا اس مصیبت سے بچا ، اس ابتلاء سے مجھے نکال ، اور خالصۃ اللہ کی جانب رجوع ہے ، خدا کا خوف دل پر غالب ہے ۔ حل لغات : شغفھا : غلاف قلب میں محبت سما گئی ، ابو عبیدہ (رض) محبت نے دل پھونک دیا ، جوہری ، باؤلا کردیا ، نخاس ، دل کے ساتھ محبت چپک گئی ، دل کے پردوں کو چاک کرگئی ، سمین ، مختلف معانی ہیں ، غرض ایک ہے یعنی غلبہ ، عشق وجنون ۔ متکا : مسند ، بعض نے تخفیف کے ساتھ بھی پڑھا ہے ، جس کے معنے ترنج کے ہیں ۔ اکبرنہ : مفسرین نے مختلف بھائی کئے ہیں ، جو حد درجہ کیک ہیں ، دراصل اس کے معنی یہ ہیں ، کہ انہوں نے غلاف توقع حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہایت قابل احترام پایا ۔