وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ’’ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں
ناقابل اصلاح گروہ : آفتاب نبوت جب چمکتا ہے تو چند آنکھیں بینائی کھو بیٹھتی ہیں اور ایسے شپرہ چشم لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جنہیں نصف النہار کے وقت بھی حق سوجھائی نہیں دیتا ، جب اللہ کی عنایت وکرم کے بادل گھر کے آتے ہیں تو ایسی زمین بھی ہوتی ہے جو شور اور سنگلاح ہو ، وہاں روئیدگی کی قطعا امید نہیں ہوتی ، کفر وعناد کا زقوم تو وہاں اگتا ہے ، مگر ایمان کا گل وریحان نہیں اگتا ، یہاں اسی چیز کا ذکر ہے ۔ ایک ناقابل اصلاح گروہ جس کا تمرد حد سے بڑھ گیا ہے تو تیئیس سال تک چشمہ فیض سے سیراب ہوتا ہے لیکن انکار وناشکری سے باز نہیں آتا جو خود کہتا ہے (آیت) ” قلوبنا غلف “ کہ ہمارے دلوں میں حق کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکر ہدایت پذیر ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور ان کے کانوں پر بھی ، نہ کان حق کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ دل ہی حق نیوش ہے ، آنکھوں کی بصیرت بھی نہیں رکھتے ، اس پر بھی تعصب وعناد کی پٹی بندھی ہے ۔ یعنی یہ لوگ صحیح استعداد کھو بیٹھے ہیں ۔ آپ ان کی مخالفت سے نہ کڑھیں ، یہاں چند نکات ملحوظ رہیں : ۔ (ا) ختم کا لفظ محض ان کی حالت کو واضح کرنے کے اختیار کیا گیا ہے ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ ایک طبیب کی طرح کسی حالت میں بھی مریض کفر سے مایوس نہیں ہوتا ہے ۔ (ب) قلب ، سمع اور بصر کا ذکر بجائے خود دلیل ہے اس بات کی ، مراد دل انقلاب پذیر ہے جو ٹھس گیا ہے ۔ اور اس کے کان جن میں فطرت نے سماعت کی قوت رکھی تھی اب نہیں رہی اور ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت سے بہرہ ور تھیں اب محروم ہوگئی ہیں ۔ ورنہ قلب کی جگہ فواد اور سمع کی جگہ اذن اور بصر کی جگہ عین کا استعمال کیا جاتا ۔ (ج) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ تبلیغ واشاعت روک دیں یہ کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ مانیں گے ، نہ یہ کہ آپ بھی اپنے فرائض سے تغافل برتیں ، یعنی (آیت) ” سوآء علیھم فرمایا سواء لک نہیں کہا ۔ کیونکہ مصلح کو کسی وقت بھی مایوس نہ ہونا چاہئے (د) حدیث میں اس انداز بیان کی تشریح نہایت حکیمانہ طرز میں مذکور ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب کوئی انسان پہلی دفعہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ سا پڑجاتا ہے ، دوسری دفعہ دو نقطے پڑجاتے ہیں اور بار بار اکتساب معصیت سے دل سیاہ دھبوں سے اٹ جات ہے یعنی پہلے پہل اقدام گناہ پر ضمیر ملامت کرتا ہے اور عادت ہونے پر اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ ان آیات کا یہی مفہوم ہے کہ یہ لوگ مردہ ضمیر ہوچکے ہیں گناہ کا احساس باقی نہیں رہا ۔ (ف ١) یہ وہ گروہ ہے جو منہ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں بدستور کفر کی غلاظت موجود ہے ۔ اس لئے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ مومن نہیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پر ست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیں ۔ لیکن اس حرکت کا کیا فائدہ ؟ زہر تو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت تو زائل نہیں ہوجاتی ، جب دلوں میں کفر ہے تو زبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں ۔ حل لغات : کفروا : جمع کفر فعل ماضی معلوم ، مذکر غائب ، مصدر کفر کے معنی اصل میں چھپانے کے ہیں کسان کو ، رات کو ، گھنے جنگل کو ، پڑ ہول وادی کو بھی کافر کے لفظ میں تعبیر کرتے ہیں ، کیونکہ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی طرح مفہوم کی حامل ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بار بار وضاحت کے باوجود بھی جانتے ہوئے خود صداقت کو چھپاتے ہیں ۔ (آیت) ” یخدعون “۔ فعل مضارع ، باب مفاعلہ اصل خدع کے معنی ہوتے ہیں ، مخالف کو ایسی بات کے یقین دلانے کی کوشش کرتا جو اس کا مقصد نہیں اور ایسے طریق سے کہ وہ بظاہر فریب دہ نہ ہو ۔