سورة البقرة - آیت 151

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جیسا کہ ہم نے (تم پر یہ انعام کیا کہ) [١٨٩] تمہیں میں سے تم میں ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیات تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت سکھلاتا ہے اور وہ کچھ بھی سکھلاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

وظیفہ رسالت : (ف1) ﴿كَمَا أَرْسَلْنَا سے مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی ہادیانہ حیثیت اسی طرح ہے کہ جس طرح ایک رسول آیت اللہ کی تلاوت کرے اور تعلیم وتزکیہ کے رموز سمجھائے ، یا یہ بتانا مقصد ہے کہ تعیین اس طرح کی ایک نعمت ہے جس طرح کہ بعثت رسول (ﷺ) ضمنا یہ بتایا ہے کہ وظیفہ رسول (ﷺ) کیا ہے ، یا انبیاء اور عام مصلحین میں کیا بین امتیاز ہے ؟ وہ یہ کہ عام مصلحین صرف کہتے ہیں ، صرف تعلیم دیتے ہیں ، لیکن انبیاء علیہم السلام تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ قلوب کو جلا بھی دیتے ہیں ، جیسے دماغوں کو معارف وحکم سے منور کرتے ہیں ‘ ویسے دلوں کی تاریک دیا کو بھی اجالے بخشتے ہیں ، ان کی نگاہیں علم ومعرفت کی سطح پر ہی مرکوز ہو کر نہیں رہ جاتیں ، بلکہ وجدان وطمانیت کی گرائیوں تک نفوذ کر جاتی ہیں ، وہ دنیا میں قول وعمل کا ایک بہترین امتزاج ہوتے ہیں یعنی جوامع الکلم کے ساتھ مکارم اخلاق کا اجتماع صرف انکے ساتھ ہی مخصوص ہوتا ہے ۔