سورة البقرة - آیت 148

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہر ایک کے لیے ایک مقررہ جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔[١٨٥] سو تم نیک کاموں میں پیش قدمی کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر لائے گا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) ان آیات میں بتایا ہے کہ ہر امت وگروہ کا ایک قبلہ عبادت ہوتا ہے ، اس لئے بحث ومناظرہ کی ضرورت نہیں ، تم جہاں کہیں بھی ہو اور جس قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہو بہرحال اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اس میں اشارہ ہے کہ صرف استقبال سے تم نے کیوں سمجھ لیا کہ مسلمان صحیح راستے پر نہیں رہے تم یہ دیکھو کہ ان میں سبقت الی الخیرات کا جذبہ موجود ہے یا نہیں یعنی نمازوں کا مقصد وفائدہ اکثر قائم ہے اور مسلمان حسب سابق خدا کی اطاعت میں سرگرم ہیں اور حصول تقوی میں وہ پہلے کی طرح پرجوش ہیں تو صرف اس لئے انہوں نے جہت کی تبدیلی کرلی ہے اور وہ بھی خدا کے حکم اور اجازت سے محروم ہوگئے ہیں ، یعنی اصل شے جو صداقت کا معیار ہے نمازوں کی کیفیت وترتیب نہیں ، بلکہ حسن عمل ہے تم دیکھو کہ ان میں جذبہ اطاعت کس درجہ مضبوط ہے کہ سترہ اٹھارہ مہینے کے عمل کو اللہ کے ایک اشارہ سے بدل دیا ہے ۔ حل لغات : اھوآئ: جمع ھوآء یعنی خواہش ۔ یعرفون : مادہ عرفان بمعنی پہچاننا ۔ ممترین ، مصدر امتراء بمعنی شک وشبہ ۔ وجھہ : طرف ۔ جانب ۔ مولی : منہ پھیرے ۔ وجہ : منہ چہرہ ۔