الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
جن لوگوں کو ہم نے کتاب (تورات) دی ہے وہ اس (کعبہ) کو یوں پہچانتے ہیں۔ جیسے اپنے [١٨٣] بیٹوں کو۔ پھر بھی ان میں یقینا ایک گروہ ایسا ہے جو دیدہ دانستہ حق بات کو چھپا جاتا ہے
(ف2) ﴿يَعْرِفُونَهُ﴾ کی ضمیر یا تو تحویل قبلہ کی طرف راجع ہے ، جیسا کہ ظاہر سباق سے واضح ہے اور یا حضور (ﷺ) کی طرف جو گو مذکور نہیں لیکن معنا سمجھے جا سکتے ہیں یعنی جس طرح یہ اپنے بچوں کو بغیر کسی دلیل منطقی کے پہنچان لیتے ہیں اور کبھی انہیں شبہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ درست وصحیح ہے یعنی ان کی مذہبی کتابوں میں جب اس کا ذکر ہے تو پھر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اگر ضمیر حضور (ﷺ) كی طرف راجع ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ (ﷺ) کی نبوت اس قدر جلی اور اظہر ہے کہ کم از کم ان لوگوں کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہیں ، وہ جو صبح ومساتین سال تک متواتر آپ کے انوار وتجلیات کو برملا دیکھتے ہیں وہ کیسے انکار کرسکتے ہیں جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے متعلق قطعی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ میری اولاد ہے اور جس طرح اسے نفسیاتی یقین ہوتا ہے ، جسے کوئی منطق اور کوئی فلسفہ شک وشبہ سے نہیں بدل سکتا ، اسی طرح ان میں کے اہل حق وبصیرت حضور (ﷺ) کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ نفسیاتی طور پر حضور (ﷺ) کو پہچانتے ہیں ، مگر باطل اور کتمان حق کی مرتکب جماعت جن کا شیوہ حیات ہی لوگوں کو گمراہ کرنا ہے ‘ انہیں روکتی ہے ۔ حل لغات: يَعْرِفُونَ: مادہ عرفان بمعنی پہچاننا ۔