سورة البقرة - آیت 144

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور جہاں کہیں بھی تم لوگ ہو، اپنا رخ اسی کی طرف پھیر لیا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب (تورات) دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم ان کے رب کی طرف [١٧٩] سے ہے اور بالکل درست ہے۔ (اس کے باوجود) جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ملکہ نبوت : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ تحویل قبلہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تم (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہی چاہتے تھے ہم نے تمہاری رضا مندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبلہ بدل دیا ، بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ایک ملکہ نبوت ہوتا ہے جو پہلے سے موجود رہتا ہے اور جس کی روشنی سے انبیاء علیہم السلام استفادہ کرتے ہیں ، یہ سراج نبوت ان کے دماغ میں ہر وقت روشن رہتا ہے ۔ صحف انبیاء اور قبلہ : (ف ٢) اس آیت میں ” تحویل قبلہ “ کو حق کہا ہے اور فرمایا ہے اہل کتاب اس کو جانتے ہیں لیکن انہیں یہ منظور نہیں کہ بیت المقدس کی تقدیس چھین کر بیت اللہ کو دے دی جائے بائیبل میں ” شوکت کا گھر “ بیت الحرام کا ٹھیٹھہ ترجمہ ہے ، دانیال (علیہ السلام) کے مکاشفہ میں ہے کہ میں نے آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھا ، جس پر خدا کا نیا نام کندہ ہے ، کیا یہ تبدیل قبلہ کی پیش گوئی نہیں ۔ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی گھر کی زیارت کے شوق میں گیت گاتے ہیں ۔ حل لغات : شطر : جانب ، طرف ۔