سورة ھود - آیت 31

وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے [٣٨] ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب جانتا ہوں، نہ یہ کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ جن لوگوں کو تم حقیر سمجھتے ہو۔ اللہ انھیں کبھی بھلائی سے نوازے گا ہی نہیں۔ جو ان کے دلوں میں ہے وہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ اگر میں ان سب باتوں سے کوئی بھی بات کہوں تو یقیناً میں ظالموں سے ہوجاؤں گا

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پہلے اعتراض کا جواب : (ف ٢) بشریت کے متعلق اعتراض کا جواب یہ ہے کہ انبیاء نے کبھی یہ دعوے ہی نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں کی طرح حوائج بشری سے متصف نہیں ، یا ان کی ضروریات انسانی ضروریات سے مختلف ہیں ، چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کمبختو ! میں نے کب یہ کہا ہے کہ میرے پاس خزانے میں اور میں بہت بڑی دولت کا مالک ہوں ، میں تو اللہ کا رسول ہوں ، رسول اگر مالدار نہ ہو تو بھی معارف وحکم کے خزانوں سے اس کا دل معمور ہوتا ہے ، وہ فطرت کے لحاظ سے فرشتہ نہیں ہوتا مگر فرشتے اس کی تقدیس کے معترف ہوتے ہیں وہ غیب نہیں جانتا ، مگر اللہ کے عنایت کہے ہوئے علوم میں وہ کائنات میں کسی دوسرے کو اپنا شریک وسہیم نہیں بناتا ۔