أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
بھلا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل [٢٠] رکھتا ہو پھر اسی پروردگار کی طرف سے ایک شاہد وہی بات پڑھ کر سنائے اور وہی بات اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (تورات) میں بھی موجود ہو جو (لوگوں کے لئے) رہنما اور رحمت تھی (تو کیا وہ اس بات میں شک کرسکتا ہے؟) ایسے ہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان گروہوں میں سے جو کوئی ایسی بات کا انکار کر دے تو اس کے لئے دوزخ ہی کا وعدہ ہے لہٰذا تجھے ایسی بات میں شک میں نہ [٢١] رہنا چاہئے۔ بلاشبہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے پھر بھی اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
قرآن خود دلیل ہے اپنی صداقت کی ! (ف1) حضور (ﷺ) نے جودین پیش کیا وہ دلائل وبراہین کا دین ہے ، اس میں کوئی بات ایسی نہیں ، جو محض تقلید کا نتیجہ ہو ، سابقہ کتب میں اس دین کی تصدیق موجود ہے ، یا یوں کہئے کہ تمام سابقہ دین اسلام کے لئے بمنزلۃ تمہید کے ہیں ، اسلام اس نقطہ اعتدال وتوازن کانام ہے ، جو افراط تفریط کے ناہموار خطوط کے درمیان واقع ہے ۔ ﴿وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ﴾ قرآن کی ایک مخصوص صفت پر دال ہے ، یعنی قرآن کی صداقت پر کھنے کے لئے بیرونی شہادتوں اور گواہیوں کی ضرورت نہیں ، قرآن کا لفظ لفظ نقطہ نطقہ اور شوشہ شوشہ دلائل وبراہین کا بحر مواج ہے ، نگاہ اگر دقیقہ رس ہو ، فطرت سعید ہو ، اور عربی کا صحیح ذوق ہو ، تو پھر قرآن کی تلاوت ہی کافی ہے ، یہ سراسر سچائی ہے اور سچائی کی دلیل ۔ حل لغات : شَاهِدٌ: گواہ دلیل ، شہادت ۔ إِمَامًا: مستند ، مانی ہوئی کتاب ، مِرْيَةٍ: شک :