سورة یونس - آیت 100

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لائے اور اللہ تو ان لوگوں پر گندگی ڈالتا ہے جو عقل [١٠٨] سے کام نہیں لیتے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) مشیت واذن الہی کے دو معنے ہیں ایک کا تعلق تکوین سے ہے ایک کا تشریع سے ، اللہ کے نزدیک پسندیدہ تو یہی ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں ، مگر تکوین میں اس نے اختلاف رائے کو باقی رکھا ہے تاکہ حق وباطل میں امتیاز قائم رہے ۔ اسی طرح اگر ” الا باذن اللہ “ سے مقصود یہ ہے کہ ایمان کے لئے جہاں تک آسانیوں اور توفیق وتسہیل کا تعلق ہے وہ اللہ کی تکوین کا نتیجہ ہے ، اس لئے وہ شخص جو ان وسائل ہدایت سے محروم ہے ، ہدایت قبول نہیں کرسکتا ، غرض یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گمراہی پر غم نہ کریں اختلاف رائے مشیت ایزدی ہے ، یہ باقی رہے گا البتہ تلقین ودعوت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔ حل لغات : کشفنا : کھول دیا یعنی عذاب کے بعض اوائل وعلائم سے دو چار ہوچکے تھے ۔ مثل ایام : عذاب کے دن ۔