ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ
پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ ابدی عذاب کا مزا چکھو۔ یہ تمہیں انہی کاموں کا بدلہ دیا جاتا ہے جو تم کرتے رہے
(ف1) بعض انبیاء کی بعثت کے بعد یہ یقین ہے کہ جو لوگ معاند ہوں انہیں تباہ کردیا جائے آفتاب ہدایت کے طلوع کے بعد کفر کی تاریکیوں کا چھٹ جانا ضروری ہے اور بدیہی ہے ۔ مکے والے بار بار پوچھتے تھے کہ کیا واقعی عذاب آجائے گا ، اور کیا واقعی ان کا انجام اچھا نہیں ، قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے ، کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عذاب آئے گا اور ضرور آئے گا ۔ چنانچہ ان اصرار کرنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ، کہ میدان بدر میں کفر کی طاقت وقوت ہمیشہ کے لئے کم ہوگئی ہے ، عذاب طلب کرنے والے عذاب میں مبتلا ہوگئے اور اللہ کی غیرت نے ان کا خاتمہ کردیا ، قرآن کے الفاظ میں اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں اور حیرت وحسرت سے انہوں نے دیکھا ، کہ اسلامیوں کی مٹھی بھر جماعت ان سے جنگ آزما ہے اور خرمن کفر وعناد کے لئے برق خاطف ثابت ہو رہی ہے ۔