سورة یونس - آیت 31

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے پوچھئے کہ : آسمان اور زمین سے تمہیں رزق کون دیتا ہے؟ یا وہ کون ہے جو سماعت اور بینائی کی قوتوں کا مالک ہے؟ اور کون ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو کائنات کا نظام چلا رہا ہے؟ وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ ’’اللہ‘‘ پھر ان سے کہئے کہ ’’پھر تم اس سے [٤٥] ڈرتے کیوں نہیں؟‘‘

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دعوت توحید : (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے توحید کی جانب انسانوں کو دعوت دی ہے ، ان سے پوچھا ہے کہ تمہیں رزق کون دیتا ہے ، کون تمہارے لئے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتا ہے ، وہ کون ہے ، جس نے کان عطا کہئے کس نے آنکھیں بخشیں ، زندگی کو موت سے اور موت کو زندگی کے خوشگوار لمحات میں تبدیل کرنے والا کون ہے ؟ کائنات کا نظم ونسق کس کے اشارہ چشم کا محتاج ہے ، ظاہر ہے ان باتوں کا فطرت انسانی کی جانب سے یہی جواب ملے گا ، کہ اللہ قرآن حکیم میں پوچھتا ہے ، کہ جب اللہ ہی اس کارحیات کو چلا رہا ہے ، تو پھر تم میں کیوں توحید کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ، تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کہ ایسے حکیم وقدیر خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے آستانوں پر جھکتے ہو ، یہ کھلی گمراہی اور شرک ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل عفو نہیں ہے ۔ جب موت وحیات اس کے اختیار میں ہے ، اور سب کے لئے فنا وموت لازم ولابد ہے تو یہ سفہاء کیونکر الوہیت کا دعوی کرسکتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی محرومی ہے وہ نہ فطرتا انسان توحید کی جانب مائل ہے دل کی گہرائیوں میں توحید کے چشمے ابل رہے ہیں فطرت کی آواز ہے کہ توحید کے سوا کوئی عقیدہ تسلی بخش نہیں ، توحید کے سوا کسی عقیدے میں تسکین قلب کا سامان موجود نہیں مگر یہ نہیں کہ مناسق کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے ۔ حل لغات : فسقوا : جنہوں نے حدود فطرت سے تجاوز کیا فسق کے حقیقی معنے فطری حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں اور راہ راست سے بھٹک جانے کے ۔