سورة التوبہ - آیت 74

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ’’انہوں نے یہ بات نہیں کہی‘‘ حالانکہ انہوں نے کفر کا کلمہ بکا تھا [٨٩] اور اسلام لانے کے بعد کافر ہوئے ہیں۔ نیز انہوں نے ایسی بات کا ارادہ کر رکھا تھا جسے وہ کر نہ سکے۔[٩٠] اور انہیں کیا چیز بری لگی تھی الا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنی مہربانی سے [٩١] انہیں غنی کردیا ہے۔ اگر یہ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر یہ اعراض کریں تو اللہ انہیں دنیا میں بھی دردناک عذاب دے گا اور آخرت میں بھی۔ اور ان کے لئے روئے زمین پر کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگا

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) کلمہ اکبر سے مراد عام باتیں ہیں جو کفر و دوستی پر مبنی تھیں منافقین کو چونکہ اصالتا اسلام سے محبت نہ تھی ، اس لئے وہ شرارتا جو چاہتے کہتے رہتے ، الہذ جب ان سے باز پرسی کی جاتی تو صاف مکر جاتے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ ان کی عداوت ودشمنی محض حاسدانہ جذبات کے تابع ہے انہیں دکھ یہ ہے ، کہ مسلمان اللہ اور رسول کی مہربانی سے کیوں دولتمند ہوگئے ہیں ۔ حل لغات : ھموا : ھم سے مشتق ہے ، بمعنی قصدہ ۔ وما نقموا : نقمہ ۔ برا سمجھنا ، نقمت الشیء اذا انکوبہ “۔