عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(اے نبی)! اللہ آپ کو معاف کرے، آپ نے انہیں کیوں (پیچھے رہنے کی) اجازت دے [٤٧] دی؟ تاآنکہ آپ پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟
(ف2) مقصد یہ ہے کہ متخلفین کو اجازت دینے میں آپ سے تسامح ہوا ہے ، چاہئے یہ تھا کہ چندے انتظار فرما لیتے اور دیکھ لیتے کہ اللہ تعالیٰ ان کے باب میں کیا تصریحات نازل فرمانے والا ہے ۔ ﴿عَفَا اللَّهُ عَنْكَ ﴾کہہ کر بدرجہ غایت تلطف ومہربانی کا اظہار فرمایا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (ﷺ) کا ہر تسامح چونکہ ایک بلند اخلاقی نصب العین کے ماتحت صادر ہوتا ہے ، اس لئے ابتدا ہی سے درخور عفو ہے ، گو اس سے منشاء الہی کی مخالفت ہو ۔ آپ نے انہیں اجازت اس لئے مرحمت فرما دی کیونکہ آپ کی فطرت میں عفو وکرم بدرجہ اتم موجود تھا ، آپ پیغمبرانہ محبت والفت کی وجہ سے مجبور تھے کہ ان کی معذرت قبول فرما لیں ۔