وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اور جہاں تک ممکن ہو کافروں کے مقابلہ کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو۔ جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ [٦٢] کرسکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور تمہارے ساتھ کچھ بے انصافی نہ ہوگی
(ف1) قوت کا مفہوم بہت وسیع ہے ، غرض یہ ہے کہ مسلمان کو دشمنوں کے مقابلہ میں ہر وقت صاحب قوت رہنا چاہئے ، توپ وتفنگ کے مقابلہ میں توپ وتفنگ ، اور علم وسنان کے مقابلہ میں علم وسنان ، جس طرح کے حالات ہوں جو ذرائع ہوں ، قوت وغلبہ کے حصول کے لئے وہ سب مسلمان کو معلوم ہونا چاہئیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور میں مسلمان کے پاس قوت کا ایک خزانہ ہو ، جس سے وہ دشمنوں کو ڈرا دھمکا سکے ، مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں خوفناک وخطرناک رہے ، اگر حصول علم قوت کے مفہوم میں داخل ہو تو سب سے زیادہ عالم ہو ، اگر ثروت ودولت کے اسلحہ کی حاجت ہو ، تو سرمایہ دار بنے ، اگر سائنس اور علوم جدیدہ قوت کے مفہوم میں داخل ہوں تو پھر ان علوم میں کوئی اس کا ثانی نہ ہو، اور اگر مادی قوتیں زیادہ لائق امتناء ہوں تو ان کا خیال رکھے ، غرض یہ ہے ، کہ ہر حال دوسروں کے مقابلہ میں عاجز نہ ہو ،