سورة البقرة - آیت 114

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اس کی خرابی کے [١٣٤] درپے ہو؟ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مسجدوں میں اللہ سے ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اسلامی مساجد انسانی اتحاد کا مرکز ہیں : (ف ١) مختلف معاہدنے ہمیشہ انسانی جماعتوں کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کردیا ہے ، زہرہ کے پجاری مشتری کے ماننے والوں کو اپنے مندروں میں نہیں گھسنے دیتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے نام لیوا عیسائیوں کو نازک سمجھتے ہیں اور اپنے کلیساؤں میں انہیں وہ محل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ، غرضیکہ معاہدجن کی غرض انسانیت کا تزکیہ وتطہیر ہوسکتی ہے بجائے خود محاذ جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہر عبادت گاہ اپنے پس پشت ایک جماعت رکھتی ہے جو اس کے نام پر نسل انسانی میں تفریق پیدا کرے ، پھر معزز اور غیر معزز کا سوال بھی ہزاروں سال سے قائم ہے ہر مندر میں ‘ ہر معبد میں ‘ ہر کلیسا و کنیسا میں ہر حیثیت کا انسان داخل نہیں ہو سکتا ، بلکہ رنگ وبو کے ہزاروں دیوتا ہیں جن کی پرستش کرنا پڑتی ہے اور جو عبد و معبود کے پاک اور براہ راست راستہ میں روک ہیں ، اسلام کہتا ہے ، خدا کے تمام بندے ‘ ہر نوع کے انسان اگر خدا کے نام پر کسی معبد میں جمع ہوتے ہیں تو انہیں قطعا نہ روکو ، اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کہ ایک چاکر اپنے مالک کے پاس آئے اور روکا جائے ، وہ جو اس کے آستانہ رحمت پر سجدہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کی اعانت کرو ، تم کون ہو جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے گھر سے نکالتے ہو ، مسجدیں دنیا میں ہمہ گیر پیغام اخوت کے مراکز ہیں ، یہاں رنگ ونسل کے تمام بت توڑوئے جاتے ہیں ہر شخص کو ہر وقت ہر مسجد میں ماللہ کے سامنے رکوع و سجود کا اختیار ہے اور حق ۔