سورة الانفال - آیت 33

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

حالانکہ یہ مناسب نہ تھا کہ اللہ انہیں عذاب دے اور آپ ان میں موجود ہوں اور نہ ہی یہ مناسب تھا کہ اللہ ایسے لوگوں کو عذاب [٣٤] دے جو استغفار کرتے ہوں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمۃ اللعالمینی کا تذکرہ ہے یعنی گو یہ لوگ عذاب طلب کرتے ہیں ، مگر جب تک آپ کو وجود گرامی ان میں رہے گا ، اللہ تعالیٰ عذاب نہیں بھیج سکتے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام عذاب سے مانع ہے ، اور پھر دوسری وجہ یہ تھی کہ عذاب طلبی میں وہ صادق بھی نہ تھے ، دل میں خائف تھے کہ کہیں واقعی عذاب نہ آجائے ، اس لئے چھپ چھپ کر استغفار کرتے ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو چھور دیا اور مدینہ میں رہنے لگے تو اس وقت بدر کی صورت میں قریش کی یہ طلب بھی پوری ہوگئی یعنی عذاب ؤیا ، اور ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ۔