سورة البقرة - آیت 109

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر سے تمہیں کافر بنا دیں۔ جس کی وجہ ان کا وہ حسد ہے جو ان کے سینوں میں ہے جبکہ اس سے قبل ان پر حق بات واضح ہوچکی ہے۔ (اے مسلمانو) ! انہیں معاف کرو [١٢٧] اور ان سے درگزر کرو تاآنکہ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنا حکم بھیج دے۔[١٢٨] بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مخاض بن عاذ وراء اور زید بن قیس یہودی نے جب دیکھا کہ غزوہ احد میں عارضی شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) اور حضرت عمار (رض) سے کہا ، آؤ پھر سے یہودی ہوجاؤ ، کیوں ہزیمت اٹھاتے ہو مسلمان رہ کر حضرت عمار (رض) نے فرمایا ، تمہارے مذہب میں نقض عہد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ بہت بری نظر سے ، فرمایا تو سن رکھو ، میں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جیتے جی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیزار نہیں ہونے کا ، حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا ، میں تو بہرحال اللہ سے خوش ہوں ، اس کے دین سے خوش ہوں ‘ اس کی کتاب سے خوش ہوں ، اس کے بنائے ہوئے قبلہ سے خوش ہوں اور مسلمانوں کی ہمہ گیر اخوت پر خوش ہوں ، یہ سن کر وہ مایوس ہوگئے بہرحال ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے ، ان آیات میں فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ، تم ان سب سیاہ کاریوں کو برداشت کرو اور معاف کر دو وقت آئے گا کہ حق خود بخود ظاہر ہوجائے گا ، اس لئے کہ اللہ کے لئے حالات کا بدل دینا کوئی مشکل نہیں ۔