سورة الاعراف - آیت 188

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

آپ کہہ دیجئے کہ : '' مجھے تو خود اپنے آپ کو بھی نفع یا نقصان [١٨٨] پہنچانے کا اختیار نہیں۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لے آئیں

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) نبی کا کام کہانت یا پیش خبری نہیں ، وہ رشد وہدایت کے لئے آتا ہے ، یعنی اس لئے کہ نیک اور ابرار کو جنات ونعیم کو خوشخبری سنائے ، اور وہ جو بدعمل اور بدکردار ہیں انہیں جہنم کی آگ سے ڈرائے ، غیب کا علم صرف ذات بےہمتا کو ہے ، عالم غیب کی باتیں بجز علیم وخبیر خدا کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ اس آیت میں حضور (ﷺ) کی زبان فیض ترجمان سے بتلایا گیا ہے کہ میں نفع ونقصان کا مالک نہیں ، یہ چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں ۔ میں اگر غیب کے لا تعداد خزانوں سے آگاہ ہوتا ، تو مجھے تکلیفیں کیوں سہنا پڑتیں ، بدروحنین کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ، دندان مبارک کیوں شہید ہوتے ، حرم محترم پر کھلے حملے کیوں کئے جاتے ، اور ایسا کیوں ہوتا ، کہ نواسا کرب وبلا میں تڑپ تڑپ کر جام شہادت نوش کرتے ، اور مجھے علم نہ ہو ، یہ باتیں اس لئے ہوئیں ، کہ مستقبل کی خبریں اللہ ہی جانتا ہے ، اور اسی میں مصلحت ہے ، انسان اگر اس محدود عقل کی بنا پر بعض ہونے والے واقعات کو قبل از وقت جان لے تو اس کے لئے دنیا میں جینا مشکل ہوجائے بعض اوقات نہ جاننا بھی اللہ کی نعمتوں میں شمار ہوتا ہے ۔