وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
بہت سے ایسے جنّ اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔[١٧٩] ان کے دل تو ہیں مگر ان سے (حق کو) سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے [١٨٠] اور یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
(ف ١) اس آیت میں وضاحت کردی کہ جو لوگ گمراہ ہیں اور جہنم کے قابل ہیں ، وہ وہ ہیں ، جن کے دل ہیں ، مگر غوروفکر کے عادی نہیں ، آنکھیں ہیں ، مگر حقائق محسوسہ کو نظر انداز کر جاتے ہیں ، کان ہیں ، مگر سماعت حق کی قوت سے محروم ہیں گویا بالکل چوپائے ہیں جن کا مقصد صرف اولے مقاصد حیات کا حصول ہے یعنی غفلت وجمود کی انتہاء (آیت) ” اولئک ھم الغفلون “۔